• Uncategorized
  • 0

وراثت کا قانون آسان الفاظ میں

وراثت کے قانون کو پاکستان کے آئین میں ایک اہم قانون تصور کیا جاتا ہے اوراسی قانون کے تحت وراثت کو ورثاء میں منصفانہ انداز میں بانٹا جاسکتا ہے ۔  ایک اسلامی ریاست  ہونے کے ناطے یہاں لاگو قوانین بھی اسلامی شریعت کے مطابق ہی بنائے  جاتے ہیں۔ اسلامی قانون کے تحت وراثت میں ہر وارث کا حصہ مقرر ہے اور وراثت کی بنیاد قریبی رشتہ داری ہے نہ کہ ضرورت مند ہونا۔  جبکہ قریبی رشتہ داری سے مراد خون کا رشتہ یا پھر نکاح کا رشتہ ہوتا ہے۔یہاں یہ بات واضع رہے  کہ پاکستان میں  وراثت کی تقسیم  متوفی کے مذہب کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل میں لائی جاتی ہے    یعنی کہ مسلمان شہریوں کو اسلامی قوانین جبکہ دیگر مذاہب کے افراد کو ان کے مذہب  کے قانون  کے مطابق وراثت میں حصہ مہیا کیا جاتا ہے۔    وراثت کا قانون سادہ ہونے کے باوجود  اپنے اندر کئی پیچیدگیاں  رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے کافی ریسرچ کی ضرورت پیش آتی ہے ۔

آئین پاکستان میں درج دو قوانین  شہریوں کے وراثت کے حق کو  یقینی بناتے ہیں۔

مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961

دی ویسٹ پاکستان مسلم پرسنل لاء 1962

وہ صورتیں جن کے بعد وراثت کی تقسیم کا سوال اٹھتا ہے

   مرحوم کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ

مرحوم کی موت کا یقین ہوجانا  یا  اس کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ وراثت کی تقسیم کی پہلی شرط ہے۔ اگر کوئی شخص  زندہ ہے تو اسکی وراثت   وارثوں میں  بانٹی  نہیں  جاسکتی  ،جب تک کہ وہ خود اسے تقسیم نہ کرنا چاہے۔

وراثت کی تقسیم میں رکاوٹ

وراثت  کی تقسیم میں رکاوٹ  کا مطلب  ہے کہ کن صورتوں میں کوئی شخص مرحوم کی وراثت سے محروم ہوجاتا ہے  یا ایسی کونسی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن میں وراثت کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔

 قتل

اگر کوئی وارث اپنے ہی موٰرث کا قتل کردے تو ااس کی وراثت سے  ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بیٹا اپنے ہی والد کا قتل کردے یا بیوی اپنے شوہر کو قتل کردیتی ہے تو ایسے میں قاتل کو مقتول کی جائیداد سے محروم کردیا جائے گا۔

   اولاد کا غیر مسلم  ہوجانا

اولاد اگر مذہب تبدیل کرلے تو وہ اپنے مسلمان باپ کے ترکے میں حصہ دار نہیں رہتی ۔ مسلمان کے ترکے کو صرف مسلمان کے لیے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔

  غلام

غلام کسی بھی صورت میں وراثت کے حق دار نہیں ہوتے ۔ اگر کوئی دوسرا وارث موجود نہیں ہے تو اس صورت میں آزاد شدہ غلام  وارث ہوسکتا ہے  ۔

 ولدالحرام

 سیکشن 112 آف  انڈین ایوڈنس ایکٹ کے تحت  وہ اولاد جو نکاح کے چھ ماہ بعد  پیدا ہو جائےیا طلاق  ہونے  کے  دس ماہ  بعد کے عرصہ میں پیدا ہو  ،اسے جائر قرار دیا جائے  گا اور وراثت کا حقدار ہوگا  جبکہ متبادل صورتحال میں  بچہ جائیداد  سے محروم رہے گا۔

سوتیلے رشتہ دار

  کوئی بھی بچہ صرف اور صرف اپنے حقیقی باپ کی وراثت  کا  ہی حق دار ہوسکتاہے۔  اسلامی قانون وراثت سوتیلے رشتوں کو وراثت میں حصہ دار قرار نہیں دیتا۔

 وارث کا زندہ ہونا

وراثت کی تقسیم  کے وقت  قریبی رشتوں کو ترجیح دی جاتی ہے  اوریہی وہ پوائنٹ ہے جب  وراثت میں یتیم پوتے کے حق کی بات سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پرایک شخص کے چار بیٹے تھے جن میں سے ایک بیٹا اسکی زندگی میں ہی وفات پا گیا۔ چونکہ اسلامی قانون وراثت کے تحت  سب سے قریبی رشتے   وراثت میں حقدار سمجھے جاتے ہیں   اس لیے اس صورت میں  جب کہ  بیٹا باپ کی موجودگی میں ہی وفات پا چکاہے اسلیے ا ب  جائیداد  کے اصل حقدار تینوں زندہ بیٹے ہی ہوں گے۔ اب  مرحوم بیٹے کی اولاد  چونکہ دور کے رشتے میں آتئ ہے اسلیے اسے ترکے میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

وراثت کے قانون کے حوالے سے مزید جاننے کے لیے اگلے بلاگ کا انتظار کریں جس میں  آ پکو ترکے کی تقسیم کے حوالے سے تفصیلا” آگاہ کیا جائے گا۔

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *