وراثت کے قانون میں وارثین کی اقسام

types of heirs in law of inheritance - ahgroup-pk

وراثت کے قوانین ایسے قوانین اور قواعد ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ افراد خاندان کے کسی متوفی کی جائیداد سے اثاثے کیسے حاصل کرتے ہیں، 

یہ قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مستفید ہونے والے اس صورت میں وراثت کی کچھ مقدار حاصل کر سکتے ہیں جب وصیت کبھی نہیں لکھی گئی تھی یا اس میں تمام میت کا احاطہ نہیں کیا گیا تھا۔ 

 جبکہ جانشینی ایک متوفی شخص کی جائیداد کو آباد کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد وارث ہونے والوں میں جائیداد کی تقسیم کا عمل ہے، ‘جانشینی‘ کی اصطلاح کسی شخص کی موت کے بعد چھوڑی جانے والی جائیداد کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ .

جانشینی ایکٹ جزوی طور پر ان لوگوں کے ساتھ کسی بھی غیر منصفانہ سلوک کو درست کرنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا جو متوفی پر منحصر تھے اور انہیں میت کی وصیت میں فراہم نہیں کیا گیا تھا۔

پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہونے کے ناطے اور ملک میں تمام قوانین کو چلانے کے لیے اسلامی قانون فراہم کرنے والا آئین ملک میں وراثت کے اسلامی قانون کو نافذ کرتا ہے۔ وراثت سے متعلق ایک جامع ضابطہ/قانون سازی کی عدم موجودگی میں، عدالتیں وراثت کے روایتی اسلامی قوانین کو مختلف مسلم فرقوں کے مطابق نافذ کرتی ہیں۔ فی الحال، صرف 1925 کا جانشینی ایکٹ اور سیکشن 4 کے تحت مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961، پاکستانی قوانین کے تحت وراثت اور جانشینی سے متعلق ایک شقیں فراہم کرتا ہے۔

 وراثت میں ملنے والی جائیداد کے حصول کے لیے، ملک کے قومی قوانین عمل میں آتے ہیں۔ متوفی سے جانشینوں کو اس طرح کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی وفاقی جانشینی ایکٹ 1925 اور صوبائی قانون سازی لیٹرز آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس ایکٹ، 2020 کے مطابق کی جاتی ہے۔

لیٹرز آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس ایکٹ کا بنیادی مقصد جانشینی کے سرٹیفکیٹس اور انتظامیہ کے خطوط کے فوری اجراء کو یقینی بنانا ہے۔ یہ ایکٹ سیکشن 3 کے تحت نادرا دفاتر میں ایک جانشینی سہولت یونٹ بھی قائم کرتا ہے، جو انتظامیہ کے خطوط اور جانشینی کے سرٹیفکیٹ دینے کے لیے درخواستیں وصول کرنے کا مجاز ہے۔ ان درخواستوں کو مسترد کرنے یا قبول کرنے کے لیے کارروائی کریں اور ان کا جائزہ لیں اور ریکارڈ رکھنے کے لیے ایک آن لائن پورٹل برقرار رکھیں۔

سیکنڈ کے مطابق 6، انتظامیہ کے خطوط کی منظوری کے لیے درخواست کے ساتھ میت کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہے۔ قانونی ورثاء کی فہرست اور ان کے قومی شناختی کارڈ کی کاپیاں؛ درخواست گزار کے حق میں قانونی ورثاء کی طرف سے اجازت؛ اور غیر منقولہ اور منقولہ جائیداد کی تفصیلات۔ اس طرح کی درخواست اعتراض کے دعوی کی وصولی سے مشروط ہے۔ جہاں ایسا کوئی دعویٰ موصول نہیں ہوتا ہے، نادرا ضلعی جج یا ہائی کورٹ کی طرف سے جانشینی ایکٹ 1925 کے تحت جاری کردہ لیٹر آف ایڈمنسٹریشن یا جانشینی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔

اسلامی قانون وراثت سب سے پہلے  قریبی رشتے داروں یعنی کے خون کے یا پھر نکاح کے رشتوں کووراثت کی تقسیم  کے وقت  ترجیح دیتا ہے ۔ وراثت چاہے زیادہ ہو یا کم ،اس کی  تقسیم  نہایت اہم ہے  جس کے لیے وراثت کے قانون کو سمجھنا بھی  ضروری ہے ۔ اسلامی قوانین وراثت میں ہر وارث کے لیے ایک خاص حصہ مخصوص کیا گیا ہے  مثال کے طور پر بیٹے کو بیٹی کے حصے کا دگنا ملےگا۔ اسی طرح  بیوی کا حصہ اولاد ہونے کی صورت میں مختلف اور بے اولاد ہونے کی صورت میں الگ ہے۔ ترکے کی تقسیم سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ وراثین کون  کون ہیں اور انھیں کتنا حصہ ملے گا۔

وارثین کی اقسام

ذوی الفروض

ذوی الفروض میں چار مرد اور آٹھ عورتوں کے حصے شامل ہیں۔ وراثت  کی تقسیم کے وقت سب سے پہلے  انھیں کو حصہ ملتا ہے ۔ ذوی الفروض ایسے قانونی وارثین ہوتے ہیں جن کا حصہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے یعنی ان میں ردوبدل ہرگز ممکن نہیں مندرجہ زیل افراد  ذوی الفروض میں شامل ہیں۔

خاوند ( اگر اولاد موجود ہے  تو بیوی کی وفات کے بعد  خاوند کو وراثت کا ¼  حصہ ملے گا ور اگر اولاد نہیں ہے تو ½ حصہ  ملے گا) ۔

بیوی ( اگر اولاد موجود ہے تو خاوند کی وفات کے بعد  1/8حصہ بیوی کو ملے گا اور اگر اولاد نہیں ہے تو ¼ حصہ کو ملے گا)۔

باپ (اگر متوفی  کا بیٹا ہے تو باپ کو وراثت کا 1/6 حصہ ملے گا اور اگر صرف بیٹی ہےتو 1/6 کے ساتھ بیٹی کے حصے  کے بعد بچا ہوا حصہ بھی باپ کو ہی ملے گا۔ اس کے علاوہ اگر متوفی کی کوئی اولاد نہیں تو اسکی ساری جائیداد باپ کے حصے میں آجائے گی)۔

دادا ( اگر متوفی کی اولاد بھی نہیں اور باپ بھی  حیات نہیں ہے تو ایسی صورت میں وراثت داد ا کو ملے گی)۔

ماں ( اگر متوفی کی اولاد اور بہن بھائی ہیں تو ماں کو 1/6حصہ ملے گا اور  اگر اولاد اور بہن بھائی نہیں ہیں تو حصہ 1/3 ہوگا)۔

دادی/ نانی( اگر متوفی کی ماں یا باپ نہیں ہے تبھی ان کو وراثت میں حصہ ملے گا اور یہ بھی 1/6 ہوگا)۔

بیٹی ( اگر متوفی  کا بیٹا نہیں ہے اور بیٹی ایک ہی  ہے تو اسے وراثت کا ½ حصہ ملے گا باقی دیگر رشتہ داروں میں بٹ جائے گا ۔ اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہیں تو وہ  2/3 کی حق دار ہوں گی پوری جائیداد پھر بھی ان کے  حوالے  نہیں ہوگی)۔

پوتی( اگر متوفی کی بیٹی اور بیٹا وفات پاچکا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ کوئی پوتا بھی نہیں ہے تو اس صورتحال میں  پوتی کو اتنا حصہ ملےگا جتنا بیٹی کو ملتا ہے)۔

مادری بہن

مادری بھائی

حقیقی بہن

پدری بہن

عصبات

وراثت میں سے ذوی الفروض کا حصہ انھیں دینے کے بعد بقیہ وراثت عصبات میں تقسیم ہوجاتی ہے۔عصبات مندرجہ زیل ہیں۔

بیٹا ( اگر متوفی  کا بیٹا  موجود ہے تو وہ بیٹی کے حصے سے دگنے کا حق دار ہوگا)۔

باپ

بھائی

چچا

ذوی الارحام

اگر مرحوم کے خونی یا نکاح کے رشتہ دار نہیں ہیں تو اسکی وراثت ذوی الارحام میں تقسیم  ہوجائے گی۔ذوی الارحام میں  یہ افراد شامل ہیں۔

بیٹیوں کی اولاد

ماموں

خالہ

پھوپھی

اس  صورتحال میں بھی مذکر کو مرحوم کے ترکے میں سے قانون کے مطابق دو جبکہ مونث کوایک حصہ لے گا۔

وراثت کی تقسیم کے لیے شرائط کے حوالے سے ہم نے آپکو اپنے پچھلے بلاگ “وراثت کا قانون آسان الفاظ میں ” میں تفصیلا” آگاہ کیا ۔ اس بلاگ میں آپ نے وارثین کے بارے میں معلومات حاصل کیں جبکہ ترکے کی تقسیم کا طریقہ بھی ہم آپکو اپنے اگلے بلاگ میں مثال دے کر سمھانے کی کوشش کریں گے۔

ریئل اسٹیٹ کے حوالے سے مزید معلومات کے لیے وزٹ کیجیئےاے ایچ بلاگ

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *