کراچی شہر کا بدحال انفراسٹرکچر
کراچی میں گزشتہ چند دہائیوں سے زمین کی قلت کا سامنا ہے۔ جو لوگ جن علاقوں میں بس گئے وہاں سے نکل کر دوسرے علاقے میں بسنے کےلیے تیار نہیں۔ جبکہ بنائی جانے والی نئی بستیوں میں مناسب انفرااسٹرکچر کی فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسی لیے شہر میں چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر کثیر المنزلہ عمارتوں کو بنانے اور ان کے پورشن بنا کر فروخت کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ عمارتیں شہر کی خوبصورتی کو ماند کرنے کے علاوہ شہر کو کنکریٹ کے ایک جنگل میں تبدیل کررہی ہیں۔ قبضہ مافیا اور پورشن مافیا نے شہر میں جہاں خالی جگہ نظر آئی وہاں کثیر منزلہ عمارتیں کھڑی کردی ہیں۔ شہر کا فضائی نظارہ کیا جائے تو جابجا کنکریٹ کے ڈھانچے نظر آتے ہیں، کھلے مقامات، باغات یا گلیاں تک نظر نہیں آتیں، جس سے شہر میں خدمات فراہم کرنا مشکل ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ کچی آبادیوں نے جہاں جگہ خالی ملی وہاں سر اٹھا لیا۔
جدید شہری زندگی میں بہت سی شہری سہولیات کو نصب کرنے کےلیے راستے اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو حق راہداری یا ٹاؤن پلاننگ سے متعلق قوانین میں خصوصی شقوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ شہری سہولتیں فراہم کرنے والی یوٹیلٹیز، جیسا کہ فراہمی و نکاسی آب، بجلی، ٹیلی فون انٹرنیٹ اور ٹی وی کے کیبلز یا دیگر یوٹیلٹیز کی قانونی گزرگاہ کو رائٹ آف وے کہا جاتا ہے۔ حق راہ داری حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یوٹیلیٹی کے پاس یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سہولتوں کو اس راستے یا جائیداد یا زمین پر نصب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جس وقت چاہے مرمت یا تبدیلی کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ اس طرح یوٹیلیٹی کو یہ حق بھی حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی تعمیر یا کوئی اور دوسری چیز اس کی راہ میں رکاوٹ بنے تو اس کو وہ ہٹانے کا قانونی حق رکھتی ہے۔ اور اگر یوٹیلیٹی کے حق راہداری پر کوئی قبضہ ہو یا رکاوٹ ہو تو اس کو خالی کرانے کےلیے یوٹیلیٹی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کی مدد بھی حاصل کرسکتی ہے۔
بجلی کے شعبے میں حق راہداری کے مسائل بہت سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ نیپرا کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کے شعبے میں حق راہدری کا پورے ملک میں مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے بجلی کی ترسیل کے توسیعی منصوبے متاثر ہورہے ہیں۔ اس مقصد کےلیے صوبائی اوروفاقی حکومتوں کو قانون سازی کرنا ہوگی۔
شہر میں بجلی کے پہلے سے بنائے گئے انفرااسٹرکچر کے انتہائی قریب عمارتوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔ پہلے تو عوام اپنی اوپری منزل کو تین فٹ باہر نکال رہے تھے مگر اب گلی کا کچھ حصہ عمارت یا گھر میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ جس کے بعد گھر کی تعمیر مزید کئی فٹ باہر نکال کی جاتی ہے، جس سے کے الیکٹرک کی تاروں اور پول پر لگے ٹرانسفارمر میں بہت کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ جبکہ بعض مقامات پر تو ٹرانسفارمر گھر یا دکان کا حصہ بنالیے گئے ہیں۔ کہیں پی ایم ٹی کو چہار دیواری میں گھیر لیا گیا ہے تو کہیں پی ایم ٹی کے اتنے قریب تعمیرات کردی گئی ہیں کہ انسانی زندگی اور املاک خطرات سے دوچار ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک کی تاروں پر جابجا کنڈے لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے اور اس مقصد کےلیے عارضی نظام وضع کیا جاتا ہے جو کے الیکٹرک نظام کے متوازی چل رہا ہوتا ہے، جس سے انسانی جانوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
ہت سے مقامات پر ہائی ٹینشن تاروں کی راہدری پر پوری پوری آبادیاں قائم ہوگئی ہیں۔ بعض اسکول اور دینی مدارس بھی بجلی کے نیٹ ورک سے بہت قریب قائم ہوگئے ہیں۔ جس وقت ہائی ٹینشن نیٹ ورک کی تنصیب کی گئی تھی، اس وقت تو زمین خالی تھی اور کہیں بھی آبادی نہ تھی۔ مگر اس کے بعد ہائی ٹینشن تاروں کے اردگرد اور پھر اس کے عین نیچے بھی گھروں کی تعمیر ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے ہائی وولٹیج تاروں کے نیٹ ورک کو ہر طرف سے آبادی نے گھیرا ہوا ہے اور بعض مقامات پر تو ہائی ٹینشن کیبلز کا کھمبا ہی رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وقت زلزلے یا تیز ہوا سے ہائی ٹینشن تار ٹوٹ کر گر جائے تو بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ اس انفرااسٹرکچر کی دیکھ بھال، مرمت اور تاروں کی تبدیلی کے لیے مشینری لانے کےلیے بھی راستہ دستیاب نہیں۔
کراچی کو قابل رہائش شہر میں تبدیل کرنے کےلیے جہاں کچرا اٹھانے، سڑکوں کی تعمیر، پارکوں اور کھلے عوامی مقامات کی بحالی، عوامی سفری سہولیات کو بحال کرنا ہے، وہیں یوٹیلٹیز کےلیے حق راہداری کو بحال کرنا بھی اہم ہے۔