پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی صلاحیت، بے ضابطگیاں اور ریرا ایک2020

ریئل اسٹیٹ پاکستان میں زراعت کے بعد ملازمتیں فراہم کرنے والا دوسرا بڑا سیکٹر ہے۔ مزدور طبقہ، ریئل اسٹیٹ ایجنٹس، بروکر، بلڈرز ، انجینئرز، ریئل اسٹیٹ کنسلٹنٹ  وغیرہ اس انڈسٹری سے منسلک اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ملکی زرمبادلہ میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر 300 سے 400 بلین ڈالر زرمبادلہ کمانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری چند ہی سالوں میں 100 فیصد سے بھی زیادہ منافع کما کردے سکتی ہے۔     اکثر سرمایہ دار افراد اس سیکٹر میں لاگو مشکل قوانین ، سسٹم کے مکمل کمپیوٹرازڈ نہ ہونے ، دستاویزات میں ہیر پھیر کے ساتھ ساتھ پٹوارانہ نظام  کے سبب گھبراتے ہیں اور تب تک انویسٹمنٹ نہیں کرتے جب تک کسی قابل بھروسہ بروکر یا پراپرٹی مینیجز سے نہ مل لیں۔ ماضی میں مختلف ہاوسنگ سوسائیٹیز میں ہونے والے فراڈ ز اوران پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہ ہونے نے بھی سرمایہ دار طبقے کو یہاں انویسٹمنٹ کرنے سے روکے رکھا ہے۔تاہم  پراپرٹی کھاتوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں  کو کنٹرول  کرنے کے لیے  حکومت  کی جانب      سے ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا  ہے جس کے زریعے پاکستان کو ایک متحرک ، محفوظ اور قابل اعتماد ریئل اسٹیٹ مارکیٹ بنانے کے لیے مضبوط فریم ورک  فراہم کیا جا رہا ہے ۔اس قانون میں واضح طور پر تعمیراتی انڈسٹری کے تمام اسٹک ہولڈرز (ریئل اسٹیٹ ایجنٹس، ڈویلپراور الاٹییز)کے فنکشن اور ڈیوٹی بڑے جامع انداز میں وضع کردیے گئے ہیں۔  جن کے مطابق  ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کوکسی بھی پراپرٹی کی خرید و فروخت کے لیے اتھارٹی کے ساتھ باقاعدہ اندراج کروانا ہوگا۔قانون کے تحت اتھارٹی کی منظوری کے بغیر کسی بھی منصوبے کے حوالے سے کوئی بھی اشتہار نہیں دیا جا ئے گا۔ریئل اسٹیٹ کے کسی بھی منصوبے پر کام کا آغاز کرنے سے پہلئے ڈویلپرز کے لیے بھی ادارے سے منظوری لینا لازمی ہوگا۔ قانون کے سیکشن12 کے مطابق اشتہار میں فراہم کردہ غلط معلومات کے بعد نقصان اٹھانے والے الاٹی کے نقصان کا اضالہ ڈویلپر کی جانب سے کیا جائے گا ۔ جبکہ سیکشن 13 کے تحت کسی بھی قسم کے ایگریمنٹ کے بغیر ڈویلپر الاٹی سے ایڈوانس وصول کرنے کا مجاز نہیں۔  قانون میں واضع کیا گیا ہے کہ ڈویلپر کسی بھی تیسری پارٹی کو ایک تہائی الاٹیز کی رضا مندی کے بغیر ڈویلپمنٹ کا کام حوالے نہیں کرسکتا۔الاٹریز کے حقوق سے متعلق چیپٹر 4 میں واضع کیا گیا ہے کہ الاٹی پراجیکٹ کے شروع ہونے سے قبل منصوبے کا مکمل لے آوٹ پلان بھی حاصل کرنا بھی الاٹی کا حق ہوگااور پراپرٹی کی خرید و فروخت یا پراجیکٹ کے مکمل ہونے کے عرصے میں شیڈول پر نظر بھی رکھ سکتا

حالیہ برسوں میں ملک کے تمام سیکٹرز کو کپیوٹرادز بنانے پر زور دیا گیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعمیرات کے شعبے کو کمپیوٹرازڈ تو کیا اسے مکمل دستاویزی صورت دینے کے لیے بھی کبھی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ سرمایہ کار پاکستان میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کو غیر محفوط تصور کرتے رہے ہیں جبکہ یہ بھی دیکنے میں آیا ہے کہ کوئی بھی پراپرٹی کامسئلہ جب سول عدالتوں میں جاتا ہے تو پہلی نسل کی جانب سے دائر مقدمے کا فیصلہ دوسری نسل وصول کرتی ہے تاہم اس قانون کے تحت اتھارٹی بل کی منظوری کے بعد 30 دن کے اندر اپیلیٹ ٹریبیونل بنانے کی مجاز ہوگی جس میں تمام اس شعبے سے متعلق تمام کیسوں کی شنوائی ہوا کرے گی۔ اب چونکہ ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا وجود واضح ہوچکا ہے تو توقع کی جا رہی ہے کہ یہ تمام سٹیک ہولڈرز کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اعتماد کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ گلوبل ریئل اسٹیٹ ٹرانسپیرنسی انڈیکس 2020  کے مطابق پاکستان کا رینک 73 ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس شعبے میں ابھی بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر حکومت نے ایک بار سرمایہ کاری کا شفاف نظام وضح کردیا اور ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کو اس ادارے سے کنٹرول کرلیا تو امید ہے کہ جلد ہی پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پیسے انوسیٹ کرنے کا نیا مرکز بن جائے گا۔

پراپرٹی کے حوالے سے مزید  تفصیلات جاننے کے لیے وزٹ کریں اے ایچ بلاگ

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *