ڈیرہ اسماعیل خان میں ہزار سال پرانا مندر

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہزار سال پرانا مندر
ڈیرہ اسماعیل خان میں ہزار سال پرانا مندر

جب بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بنے تو ایک بے حد بڑی آبادی کو علیحدگی کا درد جلنا پڑا لوگ تو جیسے تیسے الگ ہوگئے لیکن مذہبی مقامات اپنی اپنی جگہ پر ہی رہے آزادی کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندو مندر ویران ہو گئے کچھ کا تو نام و نشان سرے سے مٹا دیا گیا تو کچھ آج بھی محفوظ ہے ۔

آپ کو یہ بات جان کر حیرانی ہوگی کہ پاکستان میں آج بھی چار ہزار سے زیادہ ہندو مندر موجود ہے پاکستان میں موجود کٹاس راج مندر اور ہنگ لاج دیوی کے مندر کا نام تو بھارت میں بھی کافی مشہور ہے محبت جب عقیدت میں ڈھلتی ہے تو فن کے شاہکار وجود میں آتے ہیں ان مندروں کی طرز تعمیر اور ان میں بنی خوبصورت نقش و نگاری دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ہزاروں سال پرانی تاریخ آج بھی سانس لے رہی ہے ایسا ہی سانس لیتا ہوا ایک قدیم مندر ڈیرہ اسماعیل خان میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔

کافر کوٹ پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک قدیم مقام ہے اس کو ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دریائے سندھ کے کنارے قدیم کلے عبادت گاہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار موجود ہیں ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خان 93 میل شمال کی طرف پہاڑ کی چوٹی پہ واقع ہے جو کافر کوٹ کے نام سے مشہور ہے
کسی زمانے میں دریائے سندھ کافر کوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا جس پہاڑ پر یہ کھنڈر موجود ہے کے مشرقی جانب آبی گزرگاہ ہے آج کافر کوٹ کے تباہ شدہ کھنڈر کو نوکیلے پتھر اور خاردار جھاڑیوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے پہاڑوں کی چوٹیوں پہ ہونے کے باعث یہ آثار قدیمہ ابھی تک محفوظ ہے یہاں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے مسلمان اسے کافر کوٹ کے نام سے جانتے ہیں جبکہ ہندو اسے راجہ بل کا قلعہ کہتے ہیں ۔

اس میں موجود مندروں کی تعداد 7 کے لگ بھگ ہے خوبصورت تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کئے گئے یہ مندر ماضی میں بہت دلکش اور شاندار تھے جو عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں قدیم دور کے محل اور مندر راجا بل نے تعمیر کروائے تھے کافر کوٹ کے قلعے کے اندر پانی کا ایک تالاب بھی تھا بارش کا پانی اس تالاب میں جمع ہوتا تالاب کے گردونواع پوجا پاٹ کے لیے مندر بھی تھے یا محلات اور فصیل کے آثار آج بھی موجود ہیں کافر کوٹ کے مندروں کے چاروں اطراف ماہر کاریگروں نے خوبصورت ڈیزائن بنائے ہیں مورتیوں اور روشنی کے لیے طاقچے بھی بنائے گئے پہاڑی پہ چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار بھی پائے جاتے ہیں چار بڑے اور تین چھوٹے یہ مندر چونے کے مقامی پتھر کنجور کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں موسم یا بارش کا ان پر پر کوئی اثر نہیں ہوتا یہ تمام مندر تباہ شدہ قلعے کے اندر ہے اور آج بھی محفوظ ہیں

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *