خواجہ سراء اور ان کے وراثتی حقوق

 خواجہ سراء یا خنثیٰ کسی بھی معاشرے کا اہم کردار ہوتے ہیں لیکن عالمی سطح پر تسیری جنس قراردیے جانے والی یہ خواجہ سراء کمیونیٹی آج بھی پوری دنیا خصوصا” ترقی پذیرممالک میں امتیازی سلوک کا شکارہے۔ ان کی پیدائش پر نہ صرف سوگ منائے جاتے ہیں بلکہ انکو اپنانے کی بجائے والدین انھیں خواجہ سراء کمیونٹی کے گرووں کے حوالے کردیتے ہیں جہاں وہ مرتے دم تک کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبوررہتے ہیں۔ 2015 میں وزارت صحت کے ایک اشارے کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراء کمیونٹی کی تعداد 1 لاکھ 50 ہزارکے لگ بھگ بتائی گئی لیکن قومی شناختی کارڈ میں اصل جنس نہ لکھے جانے کے سبب 2017 کی مردم شماری میں صرف 10418 خواجہ سراء رجسٹر ہوئے۔ جن میں سے 3۔8 ٪کا تعلق خیبر پختونخوا سے، 25۔0٪ سابقہ فاٹا، 39۔64٪ پنجاب 25۔24٪ سندھ، 07۔1٪ بلوچستان اور 27۔1٪ اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔

پاکستان میں خواجہ سراء افراد(تحفظ حقوق)ایکٹ 2018 کی منظوری کے بعد ان کو بنیادی حقوق ملنے کی پہلی امید جاگی ہے۔ اس ایکٹ میں ویسے تو معاشرے کے اس پسماندہ طبقے کو مین سٹریم کرنے اورانھیں ملک کا فعال شہری بنانے کے لیے کئیں شقیں وضع کی گئیں ہیں لیکن اس تحریر میں ہم خواجہ سراء یا خنثیٰ افراد کے وراثت کے حقوق کے حوالے سے بتائیں گے، جس کے بارے میں شازو نادر ہی کوئی جانتا ہے۔

خواجہ سراء یا خنثیٰ کی پہچان

خواجہ سراء یا خنثیٰ ایسے فرد کو کہتے ہیں جس میں مزکر اورمونث دونوں کی خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ خواجہ سراء افراد (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018 میں خواجہ سراءیا خنثیٰ کی تین اقسام بتائی گئیں۔

خنثیٰ مذکر: ایسا خواجہ سراء جس میں مردوں کی علامات غالب ہوتی ہیں خنثیٰ مذکر کہلاتا ہے۔

خنثیٰ مؤنث: ایسا خواجہ سراء جس میں عورتوں کی علامات غالب ہوتی ہیں خنثیٰ مؤنث کہلاتا ہے۔

خنثیٰ مشکل: ایسا خواجہ سراء جس میں مردوں اور عورتوں دونوں کی علامات ہوتی ہیں، لیکن یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کونسی علامت زیادہ غالب ہے۔

وراثت میں خواجہ سراء افراد کے حقوق

ا ۔ خواجہ سراء افراد (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018 کے مطابق خواجہ سراوں کو انکے والدین کی وراثت میں سے نہ توبے دخل کیا جاسکتا ہے نہ ہی کسی کو ان سے امتیازی سلوک برتنے کی اجازت ہوگی۔

ب ۔ خواجہ سراء کا وراثت میں حصہ اسکے قومی شناختی کارڈ پر لکھی جانے والی جنس کے مطابق طے کیا جائے گا۔

ج ۔ مرد خواجہ سراء یا خنثیٰ کو بیٹے کے برابر یعنی بیٹی سے دگنا حصہ دیا جائے گا۔

   د۔ عورت خواجہ سراء یا خنثیٰ کو بیٹی کے برابرحصہ وراثت میں سے دیا جائے گا۔

ہ۔ خواجہ سراء مشکل کا مرد یا عورت ہونا یقینی نہیں ہوتا یہی وجہ جائیداد کی تقسیم کے وقت انکے حوالے سے مختلف معاملات پر بحث کی گئی ہے

مثلا”۔۔۔

اٹھارہ سال کی عمر کا ہونے تک اگر خواجہ سراء مشکل کو اپنے اندر مردانہ خصلتوں کا ادراک ہونے لگے تو اسے وراثت میں مردوں کاا حصہ  دیا جائےگا۔

اٹھارہ سال کی عمر کا ہونے تک اگر خواجہ سراء مشکل کو اپنے اپنے زنانہ خصلتوں کا ادراک ہو تو اسے بیٹی کا حصۃ دیا جائے گا۔

اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنےتک بھی اگر خنثیٰ مشکل کومردانہ یا زنانہ خصلتوں کا ادراک نہ ہو توایسی صورت میں  تقسیمِ وراثت کے وقت مذکر شمار کر کے بھی حصے نکالے جائیں اور مؤنث کے طور پر بھی اس کا حصہ نکال لیا جائے، پھر دونوں کو جمع کر کے نصف اسے دیا جائے۔

 خنثیٰ کے بالغ ہونے کا انتظار کیا جائےاوربلوغت کے بعد جو علامات غالب آئیں ان کے مطابق حصہ دیا جائے۔

اگر بلوغت سے پہلے کسی خواجہ سراء کی صنف کے حوالے سے جاننا ضروری ہوتو ڈاکٹر کی مدد لی جا سکتی ہے۔

خواجہ سراء افراد (تحفظ حقوق)ایکٹ 2018 کے دیگر مقاصد

ا – اس ایکٹ کی بدولت خواجہ سراء افراد  ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

ب – خواجہ سراء افراد اپنی صوابدید پر اپنے قومی شناختی کارڈ میں اپنی جنس تبدیل کروا سکتے ہیں۔

ج – گھر یا کسی بھی عوامی جگہ پر انھیں ہراساں کیے جانے پر سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔

د – خواجہ سراء افراد کو تعملیم اور نوکری کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔

ہ – جیلوں میں ان کے لیے الگ بیرک اور ہسپتالوں میں الگ وارڈ فراہم کیے جائیں ۔

و – خواجہ سراء سے زبردستی بھیک منگوانے والے کو پچاس ہزار جرمانہ اور 6 سال جیل کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ 

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *