وراثت کے بٹوارہ کا طریقہ کار

کسی بھی شخص کی وفات کے بعد  اسکی وراثت کا بٹواراہ نہایت ضروری ہوتا ہے لیکن وراثت کی تقسیم سے پہلے بھی کچھ اقدامات کرنا ضروری ہوتے ہیں جیسے کہ متوفی  کا اسکے مال میں سےاسکا اپنا حصہ سب سے پہلے الگ کرلینا۔اب متوفی کے حصے سے کیا مراد ہے اس حوالے سے جانتے ہیں۔

وراثت کی تقسیم سے پہلے کے اقدامات

۔مرحوم کے کفن دفن کے اخراجات الگ کرنا۔

۔مرحوم کے سارے  قرض اتارر جائیں جن میں مہر، ادھار، زکوٰت اور چھوڑے ہوئے روزوں کا کفارہ شامل ہیں ۔

۔وصیت:یہ کل وراثت کی ایک تہائی تک ہوسکتی ہے اور وارثین کو نہیں دی جاتی ۔اگر وصیت ایک تہائی سے بڑھ جائے تو اسے کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔

وراثت کی تقسیم

اگر متوفی کی اولاد نرینہ موجود ہے تو مرحوم کی جائیداد میں سے بہن بھائیوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا ۔ اگر اولاد نرینہ نہیں اور صرف بیٹیاں  ہی ہیں تو اس صورتحال میں بہن بھائیوں کو جائیداد میں سے قانون کے تحت مخصوص حصہ دیا جائے گا۔ سب سے پہلے ماں باپ کو پھر بیوی اور بعد میں اولاد میں وراثت  کا بٹوارہ ہوگا ۔

یہاں وراثت کی تقسیم کو مثال کے زریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، جیسے کہ ایک شخص(مرد) کی وفات ہوجاتی ہے جس نے ترکے میں 1 لاکھ 20 ہزار روپے  چھوڑے ہیں  ۔اس کے وارثین میں ماں ، باپ، بیوی دو بیٹے اور تین بیٹیاں اور بہن بھائی  موجود ہیں ۔ 

۔مرحوم نے مرنے سے پہلے 10000 روپے مسجد کے لیے  وصیت کیے  جبکہ مرحوم پر 10000 روپے کا قرضہ بھی تھا (حق مہر کی ادائیگی بھی قرض میں ہی شمار ہوتی ہے ) ، تو اصول کے مطابق وصیت اور قرضے کو سب سے پہلے وراثت سے نکال کر ادا کر دیا جاتا ہے۔اب  10000  وصیت اور 10000 قرضہ کی صورت میں نکل جانے کے بعد1لاکھ روپیہ باقی بچتا ہے ، جو وارثین میں تقسیم ہوگا ۔

وراثت کے قانون کے تحت ماں اور باپ دونوں کو علیحدہ علیحدہ چھٹا حصہ یعنی 16667   ماں کو اور 16667 باپ  کو دیا جائے گا۔

۔مرحوم کی بیوی کو ترکے کا آٹھواں حصہ دیا جائے گا  یعنی 12500 روپے بیوی کو ملیں گے(اگر مرحوم کی دو بیویاں ہیں تو یہی آٹھواں حصہ دو نوں میں تقسیم ہوجائے گا  یعنی  ہر بیوی کو 6250 روپے ملیں گے)

۔ماں باپ اور زوج کا حصہ دے دینے کے بعد 54146 باقی بچے ہیں جو اولاد میں تقسیم ہوجائیں گے۔  اب مثال کے تحت ہم نے ترکہ 2 بیٹوں اور 3 بیٹوں میں تقسیم کرنا ہے ۔  یہاں بیٹے 2 ہیں تو  چونکہ انھیں بیٹی سے ڈبل حصہ ملے گا اسلیے یہاں ہم  بیٹوں کو 4  فرض کرلیتے ہیں   

چار حصے 2 بیٹوں کے جبکہ تین بیٹوں کے 3 حصے

4+3=7

اب اگر 54166  کے 7 حصے کیے جائیں  گے تو ہر ایک کا حصہ بنا   7738  ۔۔۔۔ فارمولے کے تحت  ہر بیٹی کا چونکہ ایک حصہ ہے تو  تینوں کے حصے میں علیحدہ علیحدہ 7738 آئے گا جبکہ بیٹوں کو بیٹیوں کے حصے کا ڈبل ملے گا جو 15476 بنے گا۔

۔اگر متوفی خاتون ہے اور اس کا ورثہ 1200000روپے ہے جبکہ وارثوں میں اس نے بیٹا بیٹی اور شوہر  ہیں تو شوہر کو چوتھائی حصہ یعنی 30000 روپے ملیں گے اور بچے ہوئے 75000 میں سے ایک حصہ بیٹی  یعنی 30000اور دو حصے یعنی 60000  روپے   بیٹے کو ملیں گے۔

۔اگر ایک کلالہ  (بے اولاد)شخص کا ورثہ 120000ہےتو اس صورتحال میں بیوی کو چوتھائی حصہ یعنی30000 روپے ملیں گے اور بقیہ ورثہ بہن بھائیوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

پراپرٹی کے حوالے سے مزید  تفصٰلات جاننے کے لیے وزٹ کریں اے ایچ بلاگ

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *