خیبر پختونخوا، تاریخ کے جھروکوں سے

صوبہ خیبر پختونخوا، جسے پہلے شمال جنوبی سرحدی صوبہ یا پھر صوبہ سرحد کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، جغرافیائی طور پر یہ صوبہ وسطی ایشیائی ممالک جنوبی ایشیاء سے ملانے کا زریعہ تھا اور آج بھی درہ خیبر پاکستان کو وسطی ایشیاء سے تجارت کرنے کا واحد زمینی روٹ سمجھا جاتا ہے ۔ خیبر پختونخوا کی تاریخ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانی ہے ، جس کا زکر ہندووں کی کتاب مہابھارت میں بھی ہے۔ خطہ خیبر پختونخوا سب سے پہلے 1500-2000 قبل مسیح میں آریہ قوم کے قبضہ میں رہا ۔ ایک زمانے میں یہاں مملکت گندھارا بنائی گئی اس کے بعد اسے فارسی، یونانی، عربوں ، ترکوں ، مغلوں اوربرطانیہ نے بھی اپنی سلطنت کا حصہ بنایا۔ اس خطے پر قبضہ کرنے والے ہر حکمران نے اسی راستے سے برصغیر میں قدم رکھا اور  ایک نہ ختم ہونے والی تاریخ چھوڑ گئے۔  آج بھی اس صوبے کے مختلف مقامات ان حملہ آوروں کے جاہ و جلال اور ان کے درمیان لڑی جانے والی خونریز جنگوں کی داستان سناتے ہیں۔ اس تحریر میں ہم صوبہ خیبرپختونخوا کے چند ان تاریخی مقامات کا زکر کریں گے جو تاریخ کے پنوں میں کہیں کھوچکے ہیں۔

محمود غزنوی مسجد (اوڈی گرام)

مینگورہ سے تقریبا” 6 کلومیٹر کے فاصلے پر اوڈیگرام کے علاقہ میں واقع ایک ہزار سال پرانی یہ مسجد اس وقت کے فن تعمیر کا ایک بہترین شاہکار ہے۔ یہ مسجد اس وقت کے سلطان محمود غزنوی نے تعمیر کروائی جس کی چھت زمین 30 فٹ بلند جبکہ صحن کے درمیان میں وضو کے لیے ایک بڑا تالاب بھی تھا۔  کالے ماربل سے بنائی جانے والی اس مسجد 1984 میں اٹلی کےماہرین آثار قدیمہ نے ایک کتبے کی مدد سے دریافت کیا جس پر محمود غزنوی نے اپنے بھتیجے کو اس مسجد کو تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔  محمود غزنوی مسجد کوجنوبی ایشاء کی سب سے پرانی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔

رانی گھاٹ

ضلع بونیر کے علاقے میں واقع رانی گھاٹ تقریبا دو ہزار سال پرانا شہر تھا جو ایک پہاڑ کی بہت بڑی چٹان پر قائم کیا گیا تھا ۔ یہ شہر بدھ مت کے ماننے والوں نے تعمیر کیا جو بدھ کلچر اور آرٹ کا مرکزبھی رہا ۔ اس ریاست کا دور چھٹی صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ اس علاقے کے حوالے سے بونیر میں قصے کہانیاں مشہور ہیں جو آرکیالوجی میں دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہتی ہے ۔

سیٹھی محلہ

سیٹھی محلہ پشاور کے اندرون دیوار شہر میں واقع ہے جس میں سیٹھی خاندان کے سات مکانات موجود ہیں جو تہہ خانوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ مکانات برصغیر کے ایک نہایت ہی امیر سیٹھی خاندان کے تھے جو پاکستان بننے سے قبل یہاں منتقل ہوئے تھے ۔ ان مکانات میں لکڑی کی نقش نگاری دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتی ہے۔ ان مکانات کی تعمیر بخارا طرز تعمیر کے مطابق کی گئی ہے جبکہ ہر مکان دو یا تین منزلہ ہے ۔ ان گھروں کی تعمیر میں استعمال ہوئے دورازے، چھت پر لگے شہتیر، الماریاں ، روزن دان، اور بالکنیوں کے چھجوں میں لکڑی کے نقش و نگار دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیٹھی محلہ ہر سال دنیا بھر سے کئی سیاحوں کو اپنی جانب کھیچنے میں کامیاب رہتا ہے ۔

جناں والی ڈھیری

ٹیکسلا میوزیم سے تقریبا” 10 کلومیرٹر کے فاصلے پر بہتے دریائے ہرو کے پاس ایک نہایت ہی عجیب و غریب آثار قدیمہ دریافت ہوئے جنہیں جناں والی ڈھیری کہا جاتا ہے اس جگہ کو جناں والی ڈھیری ( جنوں کا گھر) یہاں موجود 17 زندان خانوں سے ملنے والے سیکنڑوں انسانی ڈھانچوں کے بعد رکھا گیا۔ یہ شہر بھی بدھ مت کے دور میں آباد ہوا جہاں کئی خانقاہیں اور تعلیی مراکز کےعلاوہ عبادت گاہیں اور منصوبہ بندی سے بنائے گئے شہر کے آثار ملے ہیں۔ جناں والی  ڈھیری میں ایک سٹوپہ اور زندان خانوں کے علاوہ ایک مین ہال بھی موجو ہے ۔ مورخین کے مطابق یہ شہر یا ٹاون ہنز نے آکرتباہ کیا۔ اس جگہ سے دریافت ہونے والے کنشکا راجہ کے زمانے کے کوائن، زیورات، برتن اور دیگر اشیاء ٹیکسلا میوزیم میں محفوظ ہیں۔

کافر کوٹ

کافر کوٹ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے سندھ کے قریب واقع ہے ۔ 2ہزارسال قبل کافر کوٹ کے مقام پر بنائے گئے  چھ مندروں کے کھنڈرات آج بھی اپنے اندر ان سالوں کے کئی قصے چھپائے ہوئے ہیں۔ ان چھ مندروں میں سے ایک 1992 میں گر چکا ہے اور بقیہ پانچوں مندر بھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ یہ تمام مندر ایک تباہ شدہ کافر کورٹ قلعے کے اندر واقع ہیں جسے دفاعی لحاظ سے کافی مضبوط تعمیر کیا گیا تھا۔ کافر کوٹ شہر کے اندر ایک مضبوط فصیل بھی بنائی گئی تھی جس میں حفاظتی مورچے بھی تھے۔

تخت بائی

تخت بائی کا علاقہ  ضلع مردان سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو کبھی  گندھارا تہذیب و تمدن کا منبع تھا۔ تقریبا” دو ہزار سال پہلے آباد اس خطے پر قوم کشن کے بادشاہ کشنک نے ایک ایسا شہر آباد کیا جس کے کھنڈرات اہل عقل کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ یہاں موجود بدھ کمپلیکس چار اہم بدھ گروپس میں تقسیم تھا، پہلا اسٹوپا، دوسرا راہبوں کی خانقاہ، تیسرا مندر اور چوتھا تنتری راہبوں کی خانقاہ پر مشتمل تھا۔برطانوی دور حکومت میں مزدوروں نے کسی کام سے کھدائی کی تو چند مورتیاں ان کے ہاتھ لگیں جس کے بعد انگریز حکومت حرکت میں آئی۔ ، اس جگہ کو یونیسکو نے تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے 1980 میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ یہ جگہ ان افراد کے لیے خاص توجہ کا مرکز جو آثار قدیمہ اور تاریخ میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

پراپرٹی کے حوالے سے مزید  تفصیلات جاننے کے لیے وزٹ کریں اے ایچ بلاگ

You may also like...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *